Ruby Arun

Sunday 29 April 2012

چدمبرم وزیر اعظم بننا چاہتے ہیں


روبی ارون 
وزیر  داخلہ پی چدمبرم وزیر اعظم بننا چاہتے ہیں اور ان کا دامن پکڑ کر چلنے والے وزیر برائے فروغِ انسانی وسائل کپل سبل وزیر داخلہ۔ پی چدمبرم نے اپنی منشا میں کامیاب ہونے کی خاطر ذریعہ بنایا ہے ملک کی خفیہ ایجنسی، انٹیلی جنس بیورو یعنی آئی بی کو۔ وزیر داخلہ پی چدمبرم وزیر اعظم بننے کے لیے اس قدر بے چین ہیں کہ انہوں نے نہ تو اپنی پارٹی، سرکار کی پروا کی ہے اور نہ ملک کی داخلی سیکورٹی کی۔
وزیر داخلہ پی چدمبرم کے وزیر اعظم بننے کی راہ میں دو بڑی رکاوٹیں ہیں، پہلے وزیر دفاع اے کے انٹونی اور دوسرے وزیر خزانہ پرنب مکھرجی۔ اے کے انٹونی کی شبیہ بے حد صاف ستھرے اور با اخلاق وزیر کی ہے۔ انٹونی غیر متنازع رہے ہیں۔ وہ آرمی چیف جنرل وی کے سنگھ کے ساتھ فوج میں ہورہی بدعنوانی اور اسلحوں کی دلالی کی مخالفت میں کھڑے ہیں۔ گزشتہ کچھ دنوں سے دفاعی سودوں کے ساتھ گہرے تعلقات کو لے کر وزیر داخلہ پی چدمبرم کے متنازع بیٹے کارتک چدمبرم کا نام خوب اچھلا ہے۔ ٹو جی اسپیکٹرم گھوٹالے میں بھی پی چدمبرم اور ان کے بیٹے کارتک چدمبرم کے مشکوک رول کو لے کر خوب واویلا مچا، لیکن اب مسئلہ ملک کی سیکورٹی کا ہے، جسے لے کر وزیر دفاع اور جنرل وی کے سنگھ کا رویہ بے حد سخت ہے۔
آئی بی کے کچھ اعلیٰ عہدیداروں اور ملٹری انٹیلی جنس کے کچھ تیز طرار اہل کاروں کا دائرہ بناکر پی چدمبرم نے وزیر اعظم منموہن سنگھ، کانگریس کی صدر سونیا گاندھی، کانگریس کے جنرل سکریٹری راہل گاندھی، پرینکا گاندھی، وزیر دفاع اے کے انٹونی، وزیر خزانہ پرنب مکھرجی سمیت وزارتِ دفاع، وزارتِ خزانہ اور وزیر اعظم کے دفتر کے ان سینئر نوکرشاہوں پر شکنجہ کس رکھا ہے، جو ان کی وزیر اعظم بننے کی راہ میں روڑہ بن سکتے ہیں۔ وزارتِ داخلہ نے آئی بی اور ڈیفنس انٹیلی جنس کے کچھ چنندہ اہل کاروں کی معرفت ان سبھی کے فون ٹیپ کرائے ہیں اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ ملک کی سرحد پر دشمنوں کا پتہ لگانے والے آلہ آف ایئر انٹراسیپٹر کو نارتھ بلاک اور ساؤتھ بلاک کی پارکنگ میں کھڑی گاڑیوں میں لگا کر جاسوسی کے اس کام کو انجام دیا جا رہا ہے۔ آف ایئر انٹراسیپٹر ایک ایسا آلہ ہے، جو اپنے آس پاس کے تین کلومیٹر کے علاقہ میں ہونے والی ٹیلی فونک بات چیت کو ریکارڈ کر سکتا ہے۔ اس آلہ میں رسیور اور کنکٹر دو موڈ ہوتے ہیں۔ آپ کو جس کی بھی بات چیت ریکارڈ کرنی ہے، اس کا نمبر کنکٹر میں فیڈ کردیں اور رسیور میں اپنا نمبر ڈال دیں۔ کنکٹر میں فیڈ کیے ہوئے سبھی نمبروں کی ٹیلی فونک بات چیت رسیور موڈ میں ریکارڈ ہو جاتی ہے۔ اسی تکنیک کا استعمال کرکے وزارتِ داخلہ نے وزیر داخلہ کی ہدایت پر ان کے سبھی سیاسی مخالفین کی بات چیت ریکارڈ کر لی ہے۔ آئی بی تو وزارتِ داخلہ کے ماتحت ہی آتا ہے، لیکن اس میں ڈیفنس انٹیلی جنس کے جن تین سینئر اہل کاروں نے پوری مدد کی ہے، وہ سابق اور متنازع فوجی آفیسر لیفٹیننٹ جنرل تیجندر سنگھ کے بے حد بھروسے کے ہیں۔ تیجندر سنگھ اپنی ملازمت کی مدت کے دوران ڈائریکٹر جنرل، ڈیفنس انٹیلی جنس رہ چکے ہیں۔ ان تین اہل کاروں میں ایک میجر جنرل، دوسرا کرنل اور تیسرا بریگیڈیئر کی سطح کا افسر شامل ہے۔ ہمارے پاس ان تینوں اہل کاروں کے نام ثبوت کے ساتھ موجود ہیں، لیکن چونکہ وزیر دفاع نے ان تینوں اہل کاروں کے مشکوک رول کے خلاف جانچ کے احکام جاری کیے ہیں اور ان سے بے حد خفیہ طریقے سے پوچھ گچھ کی جا رہی ہے، اس لیے ان کا نام فی الحال پردے کے پیچھے رکھنا ملک کے مفاد میں ضروری ہے۔
جن خاص لوگوں کی بگنگ کی گئی ہے، ان میں سب سے اوپر نام آتا ہے وزیر دفاع اے کے انٹونی اور وزیر خزانہ پرنب مکھرجی کا۔ ان کے علاوہ سونیا گاندھی، راہل گاندھی، پرینکا گاندھی، دِگ وجے سنگھ، ڈیفنس سکریٹری ششی کانت شرما، آئندہ ہونے والے آرمی چیف لیفٹیننٹ جنرل بکرم سنگھ اور پاکستان سے تعلق رکھنے والی ان کی بہو، اٹارنی جنرل غلام ای واہن وَتی، جنرل وی کے سنگھ کے وکیل یو یو للت اور اٹارنی جنرل روہنٹن نریمن وغیرہ کے فون ریکارڈ کیے گئے ہیں۔ سونیا گاندھی کے خصوصی سکریٹری مادھون اور اُمیش کے فون بھی وزارتِ داخلہ کے راڈار پر ہیں۔ کانگریس کے جنرل سکریٹری راہل گاندھی کہاں آتے جاتے ہیں، کس سے ملتے ہیں اور کتنی دیر باتیں کرتے ہیں، یہ ساری اطلاع آئی بی وزارتِ داخلہ کو فوراً پہنچاتا ہے۔ وزیر خزانہ پرنب مکھرجی کی صلاح کار اومیتا پال اور پرسنل سکریٹری منوج پنت کے گھر اور دفتر پر آئی بی کی خاص نظر ہے۔ وزیر دفاع کے صلاح کار اور جوائنٹ سکریٹری راگھویندر نارائن دوبے کے ساؤتھ بلاک میں واقع کمرہ نمبر 107 کی سرگرمیوں پر بھی کڑی نگاہ رکھی جا رہی ہے۔
وزارتِ دفاع میں جوائنٹ سکریٹری سطح کے افسر بتاتے ہیں کہ اتر پردیش انتخابات کے نتائج کے بعد راہل گاندھی ایک ہفتہ کے لیے فلپائن گئے تھے، جہاں انہوں نے اسکوبا ڈائیونگ کی۔ راہل گاندھی کے پیچھے پیچھے آئی بی اور راء کے اہل کار بھی فلپائن پہنچ گئے۔ راہل گاندھی کی سیکورٹی کے لیے نہیں، بلکہ ان کی جاسوسی کرنے کے لیے۔ ایسی بات نہیں ہے کہ کانگریس کی صدر سونیا گاندھی اور وزیر اعظم منموہن سنگھ کو وزیر داخلہ پی چدمبرم کی ان کارگزاریوں کا علم نہیں ہے، بلکہ وہ سب جان رہے ہیں، لیکن وزیر داخلہ کے سامنے بے بس اور لاچار ہیں۔ سننے میں یہ بات عجیب لگتی ہے، پر سچ ہے۔ فون ٹیپنگ کی یہ پلاننگ یا یوں کہہ لیں کہ وزیر داخلہ پی چدمبرم کی چال بے حد سوچی سمجھی ہے۔ جب وزیر داخلہ پی چدمبرم ملک کے وزیر خزانہ ہوا کرتے تھے، تب سال 2005 میں انہوں نے موجودہ کابینی سکریٹری اور اُس وقت فائنانس سکریٹری رہے کے ایم چندرشیکھر سے ایک فائل کی نوٹنگ پر کارروائی کرائی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ مرکزی اقتصادی خفیہ بیورو، یعنی سی ای آئی بی کی جگہ فون ٹیپ کرنے کا کام سی ڈی بی ٹی، یعنی سنٹرل بورڈ آف ڈائریکٹ ٹیکسز کو سونپ دیا جائے۔ سی ڈی بی ٹی وزارتِ خزانہ کے ماتحت ہوتا ہے۔ اس وقت کے وزیر خزانہ پی چدمبرم اور فائنانس سکریٹری کی دلیل یہ تھی کہ سی ڈی بی ٹی کو یہ اختیار ملنے سے جو فون ٹیپنگ کی جائے گی، وہ کالے دھن اور اس کے غلط استعمال پر روک لگانے میں مدد کرے گی۔ اُس وقت کے وزیر داخلہ شیو راج پاٹل نے اس پر منظوری بھی دے دی، لیکن جب پی چدمبرم اور کے ایم چندرشیکھر کے رول میں تبدیلی آئی، تب ان لوگوں کو لگا کہ سی ڈی بی ٹی جو بڑے بڑے صنعت کاروں، سرمایہ داروں کے فون ٹیپ کرتا ہے، اسے یا تو وزارتِ داخلہ کے ماتحت ہونا چاہیے یا اسے فون ٹیپنگ کرنے والی جانچ ایجنسیوں کی فہرست سے ہٹا دینا چاہیے۔ سی ڈی بی ٹی کے ایک سینئر آفیسر کہتے ہیں کہ وزیر داخلہ نے کارپوریٹ سے متعلق خود غرضیوں کے آگے سر جھکا دیا ہے، وہ نہیں چاہتے کہ کالے دھن کا انبار جمع کرنے والے ان کے سرمایہ دار دوستوں کے کارناموں کی خبر پرنب مکھرجی تک پہنچے اور ان کے خلاف کوئی ایکشن لیا جائے، کیو ںکہ گزشتہ دنوں ایک ایجنسی نے سب سے زیادہ اقتصادی جرائم کے معاملوں کا خلاصہ کیا ہے، جس سے پرنب مکھرجی کی وزارت کا گراف اونچا ہوا ہے، جو وزیر داخلہ پی چدمبرم کو قطعی برداشت نہیں ہے۔ چدمبرم کی ہدایت پر کابینی سکریٹری کے ایم چندرشیکھر نے ایک کمیٹی کی تشکیل کرکے سرکار کو یہ صلاح دی ہے کہ سی ڈی بی ٹی جیسی ایجنسی کی کوئی ضرورت نہیں ہے، پر چونکہ وزیر اعظم منموہن سنگھ کو بھی وزیر داخلہ کی کارگزاریوں کی خبر ہے، لہٰذا انہوں نے ان کی اس مانگ پر فی الحال یہ کہتے ہوئے عمل کرنے سے منع کر دیا ہے کہ اس معاملے میں آخری فیصلہ لینے سے پہلے وہ مکھرجی سے صلاح و مشورہ کرنا چاہیں گے۔
دراصل، وزیر داخلہ پی چدمبرم کے وزیر اعظم بننے کی راہ میں دو بڑی رکاوٹیں ہیں، پہلے وزیر دفاع اے کے انٹونی اور دوسرے وزیر خزانہ پرنب مکھرجی۔ اے کے انٹونی کی شبیہ بے حد صاف ستھرے اور با اخلاق وزیر کی ہے۔ انٹونی غیر متنازع رہے ہیں۔ وہ آرمی چیف جنرل وی کے سنگھ کے ساتھ فوج میں ہورہی بدعنوانی اور اسلحوں کی دلالی کی مخالفت میں کھڑے ہیں۔ گزشتہ کچھ دنوں سے دفاعی سودوں کے ساتھ گہرے تعلقات کو لے کر وزیر داخلہ پی چدمبرم کے متنازع بیٹے کارتک چدمبرم کا نام خوب اچھلا ہے۔ ٹو جی اسپیکٹرم گھوٹالے میں بھی پی چدمبرم اور ان کے بیٹے کارتک چدمبرم کے مشکوک رول کو لے کر خوب واویلا مچا، لیکن اب مسئلہ ملک کی سیکورٹی کا ہے، جسے لے کر وزیر دفاع اور جنرل وی کے سنگھ کا رویہ بے حد سخت ہے۔
ظاہر ہے کہ ان کی اس پہل سے کئی لوگوں کے مفادات متاثر ہوں گے، جو وزیر داخلہ کو بالکل راس نہیں آرہا۔ کانگریس کے ایک سینئر لیڈر بتاتے ہیں کہ چدمبرم کی کوشش یہ ہے کہ وہ جھٹکے سے اپنے سیاسی حریفوں کا قد چھوٹا کردیں۔ لہٰذا انہوں نے بے حد شاطرانہ طریقے سے فوج کی دو ٹکڑیوں کے دہلی روانہ ہونے کی من گڑھت کہانی انڈین ایکسپریس میں شائع کروادی، تاکہ اپوزیشن اے کے انٹونی کے استعفیٰ کی مانگ کرے اور جنرل وی کے سنگھ بھی کٹہرے میں کھڑے ہو جائیں، جس کا سیدھا فائدہ انہیں اور ان کے بیٹے کو ملے۔ بدعنوانی کے الزاموں میں گھری سرکار کو بچانے کے لیے منموہن کے علاوہ انٹونی کی شکل میں بھی ایک صاف ستھرا وزیر اعظم بنانے کا جو متبادل سونیا گاندھی کے پاس ہے، وہ ختم ہو جائے اور دفاعی سودوں سے جڑی لابی کو بھی کوئی نقصان نہ پہنچے۔
دراصل، 16 جنوری کو فوج کی جو ٹکڑیاں مشق کے لیے سڑکوں پر اتری تھیں، اس کی پلاننگ گزشتہ سال ستمبر کے مہینہ میں ہی کر لی گئی تھی۔ چدمبرم کو اس بات کی اطلاع اس فوجی آفیسر سے ملی تھی، جو جنرل وی کے سنگھ کی کارروائی کے تحت کام کرنے کی وجہ سے آسام رائفلس کی کمان نہیں تھام سکا تھا۔ یہ آرمی آفیسر تیجندر سنگھ کی لابی کا ہے اور وزیر داخلہ کے لیے جاسوسی کرنے کا کام بھی کرتا ہے۔ چدمبرم نے فوج کی ٹکڑیوں کی مشق کی خبر اپنے بیٹے کارتک چدمبرم کو بھی دی۔ کارتک چدمبرم اور انڈین ایکسپریس کے ایڈیٹر شیکھر گپتا گہرے دوست ہیں۔ کارتک اور اس کے وزیر داخلہ والد پی چدمبرم وزیر دفاع اور آرمی چیف جنرل وی کے سنگھ سے پہلے ہی خار کھائے بیٹھے ہیں۔ جنرل وی کے سنگھ سے وزیر داخلہ کی ناراضگی اس بات سے ہے کہ وہ ٹیٹرا ٹرک کی خرید کے کھیل میں شامل لوگوں کی راہ میں کانٹا بنے ہوئے تھے۔ یہ کھیل بغیر کسی رکاوٹ کے چلتا رہے، اس کی خاطر ضروری تھا کہ جنرل سنگھ کو باہر کر دیا جائے۔ اس لیے فوج کی نارمل موومنٹ کو تختہ پلٹ کی شکل دی گئی۔
دہلی پولس کو بھی اس سازش کا حصہ بنایا گیا۔ جس دن فوج کی دو ٹکڑیاں نارمل موومنٹ کر رہی تھیں، اس دن دہلی پولس نے جگہ جگہ بیری کیڈ لگایا، ٹریفک دھیما کیا۔ اس سیاسی ناٹک میں کپل سبل نے وزیر داخلہ کا پورا ساتھ دیا۔ کانگریس ہیڈ کوارٹر میں اس بات کی کھلے عام چرچہ ہے کہ جنرل کے ذریعے وزیر اعظم کو بھیجے گئے خط کو لیک کرانے میں کپل سبل نے ہی رول نبھایا ہے۔ درحقیقت، اس خط کو لیک کراکر جنرل وی کے سنگھ کو برخاست کرانے کی پوری تیاری تھی۔ انہیں لگا تھا کہ اس مسئلے پر بی جے پی سمیت دیگر اپوزیشن پارٹیوں کا ساتھ ملے گا، پر ایسا ہوا نہیں اور پی چدمبرم، کارتک چدمبرم اور کپل سبل کے کیے کرائے پر پانی پھر گیا۔
حالانکہ شیکھر گپتا اپنی جھوٹی خبر پر اب بھی قائم ہیں اور اس کے لیے وہ دفاعی امور کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے دو ممبران کا حوالہ دیتے ہیں، جنہوں نے فوج پر سوال اٹھایا ہے۔ پر مزے کی بات یہ ہے کہ ان دونوں ممبران کی ایسی کوئی معتبریت نہیں ہے، جس کی وجہ سے فوج پر ہی سوال اٹھائے جائیں۔ ان میں سے ایک ہیں اسد الدین اویسی اور دوسرے ہیں نریش گجرال۔ اسد الدین اویسی کو کوئی جانتا بھی نہیں اور نریش گجرال کی کل ملا کر پہچان یہ ہے کہ وہ اندر کمار گجرال کے بیٹے ہیں۔ اندر کمار گجرال اور پرکاش سنگھ بادل کے درمیان پرانے تعلقات ہیں اور اسی کی بناپر بادل نریش گجرال کو راجیہ سبھا بھیج دیتے ہیں۔ نریش گجرال، کپل سبل اور شیکھر گپتا میں خوب بنتی ہے۔ شیکھر کے کہنے پر اگر نریش گجرال آرمی چیف کو بلاوا بھی بھیجیں تو کوئی حیرانی کی بات نہیں ہوگی، کیوں کہ شیکھر گپتا اپنے اخبار کے ذریعے وقت وقت پر انہیں خوب فائدہ پہنچاتے ہیں۔ مثلاً انا تحریک کے وقت کپل سبل کے کہنے پر ہی شیکھر گپتا نے کرن بیدی کو کرپٹ ثابت کرنے کی مہم اپنے اخبار کے ذریعے چلائی تھی۔ اُدھر پی چدمبرم سے بھی ان کے رشتے قریب کے ہی ہیں۔ لہٰذا، دوستی کی خاطر الفاظ کادائرہ بنا دیا گیا۔ نارتھ بلاک کے رسپشن پر رکھا وزیٹر رجسٹر اس بات کا گواہ ہے کہ خبر لکھنے سے پہلے شیکھر گپتا نے لگاتار چار بار چدمبرم کے ساتھ صلاح و مشورہ کیا۔
بہرحال، پی چدمبرم پر آئی بی او ر راء جیسی خفیہ ایجنسیوں سے اپنی ہی سرکار کی جاسوسی کرانے کا الزام نیا نہیں ہے۔ پہلے بھی ایسے واقعات اور حقائق سامنے آ چکے ہیں۔ وزیر خزانہ پرنب مکھرجی اور وزیر دفاع اے کے انٹونی کے دفاتر سے جاسوسی کا معاملہ خوب طول پکڑ چکا ہے۔ دونوں ہی جگہوں سے مشکوک چپچپے مادّے اور آلات کے برآمد ہونے کی پختہ خبریں بھی آئی ہیں۔ سرکار نے بعد میں بھلے ہی صفائی پیش کی ہو، پر سچ یہی ہے کہ اے کے انٹونی اور پرنب مکھرجی دونوں نے ہی خط لکھ کر وزیر اعظم کو یہ اطلاع دی تھی کہ ان کے دفاتر میں جاسوسی کے آلات لگائے گئے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ قاعدے سے انہیں وزیر داخلہ کو مطلع کرنا چاہیے تھا، پر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ ظاہر ہے کہ انہیں چدمبرم اور ان کی وزارت پر بھروسہ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جاسوسی کی بات سامنے آنے پر وزارتِ خزانہ اور وزارتِ دفاع دونوں نے ہی آئی بی کی بجائے پرائیویٹ ڈٹیکٹو ایجنسی سے جانچ کرائی۔ دونوں وزارتوں نے تو اپنے ماتحت آنے والی ڈیفنس انٹیلی جنس کو بھی چھان بین کی اس کارروائی سے الگ رکھا، پر چدمبرم کو ان باتوں سے کوئی فرق پڑتا نہیں دکھائی دے رہا ہے۔ وہ پورے ملک کے قانون اور خفیہ نظام پر پوری طرح قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ آئی بی کے ایک ریٹائرڈ آفیسر بتاتے ہیں کہ این سی ٹی سی کے مسئلے پر چدمبرم اس لیے جلد بازی کر رہے ہیں، تاکہ این سی ٹی سی اور آئی بی کی معرفت وہ ملک کی تمام ریاستوں میں دخل اندازی کر سکیں۔ حالانکہ وزیر اعظم منموہن سنگھ اور سونیا گاندھی چدمبرم کی منشا سے واقف ہیں اور وہ ممتا بنرجی، جیہ للتا، نوین پٹنائک اور نریندر مودی کی مانگ کا بہانہ لے کر اس مدعے کو ٹال رہے ہیں۔ وزیر داخلہ پی چدمبرم کے ذریعے خفیہ ایجنسی کے بے جا استعمال پر ان کے افسروں کے درمیان بھی بے اطمینانی اور احتجاج کا ماحول ہے۔ افسروں کے دو گروپ بن چکے ہیں۔ ایک وہ ہے، جو چدمبرم کو وزیر اعظم کے طور پر دیکھ رہا ہے، اس لیے ان کا فرماں بردار بنا رہنا چاہتا ہے۔ دوسرا گروپ وہ ہے، جو چدمبرم کی ان حرکتوں سے افسردہ ہے۔ آئی بی سے پریشان ایک افسر بتاتے ہیں کہ کچھ اہل کار اس سنجیدہ مسئلے پر وزیر اعظم سے بھی ملے تھے۔ انہوں نے تمام باتوں کا خلاصہ ان کے سامنے کیا۔ تب وزیر اعظم کا جو بیان آیا، وہ انہیں حیران کر گیا۔ منموہن سنگھ نے ان سے کہا کہ ملک کی اندرونی سیکورٹی سے جڑی کوئی اطلاع ان کی میز تک نہیں آتی۔ انہیں صرف انہی مسئلوں کی جانکاری ہوتی ہے، جن میں وزیر اعظم کا رول ضروری ہوتا ہے۔
اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وزیر داخلہ پی چدمبرم نے کس قدر سب کو لاچار بنا دیا ہے اور وزیر اعظم بننے کی چاہت میں وہ ملک کی سا  لمیت سے بھی کھلواڑ کر رہے ہیں۔

No comments:

Post a Comment